چاند جب دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے
اور پھیلا دئیے کچھ اپنے کنارے ہم نے

اِک عجب شور مچاتی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دُہرائے سمندر کے اشارے ہم نے

اتنے شفّاف کہ تھے رُوØ+ Ùˆ بدن آئینہ
اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظارے ہم نے

رات کیا ٹُوٹ کے آئی تھی کہ اُس دامن سے
جھولیوں بھرلیے آنکھوں میں ستارے ہم نے

لَوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لوٹیں تو دُکھیں
وہ زمانے جو تیرے ساتھ گُزارے ہم نے

کُھلتا جاتا ہے کہ یہ جلوہ گری کِس کی ہے
آئینے سامنے رکھے ہیں ہمارے ہم نے